چیف جسٹس پاکستان نے کیس میں ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو ایک کاغذ کا ٹکرا دکھا کریہ نہیں کہا جا سکتا کہ لو انتخابات کرا دیے۔ پی ٹی آئی اگرالزام تراشی اورسیاسی ڈراما کرنا چاہتی ہے توادارے کمزورہونگے۔
سپریم کورٹ میں تحریک انصاف انٹراپارٹی انتخابات اور انتخابی نشان سے متعلق کیس کی سماعت جاری، چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سماعت کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے، وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ فیصلہ پڑھا ہے پشاورہائی کورٹ نے بہترین فیصلہ لکھا ہے۔
حامد خان نے علی ظفر کو دلائل کیلئے روسٹرم پر بلا لیا جس کے بعد بیرسٹرعلی ظفر نے دلائل کا آغازکیا۔
بیرسٹرعلی ظفرکے دلائل
بیرسٹرعلی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے، وقت کی قلت ہے اس لئے جلدی دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہا کہ ہمارے پاس بھی وقت کم ہے کیونکہ فیصلہ بھی لکھنا ہے۔
علی ظفرنے دلائل دیے کہ آئین اور قانون الیکشن کمشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی اسکروٹنی کا اختیار نہیں دیتا، الیکشن کمیشن پارٹی انتخابات بے ضابطگی کے الزام پرانتخابی نشان واپس نہیں لے سکتا، سپریم کورٹ نے کئی فیصلوں میں آئین کے آرٹیکل 17 کی تشریح کی ہے، ایک نشان پر انتخاب لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے۔
وکیل پی ٹی آئی نے دلائل دیے کہ انتخابی نشان سے محروم کرنا سیاسی جماعت اورعوام کے بنیادی حق کی نفی کرنا ہے، الیکشن کمشین عدالت نہیں ہے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کیساتھ جانبدارانہ اور بدنیتی پر مبنی سلوک کیا، بنیادی سوال سیاسی جماعت اوراس کے ارکان ہے اس لیے شفاف ٹرائل کے بغیر کوئی فیصلہ ممکن نہیں۔
بیرسٹرعلی ظفرنے کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں جو شفاف ٹرائل کا حق دے سکے، الیکشن کمیشن میں کوئی ٹرائل ہوا ہی نہیں، پی ٹی آئی کے کسی رکن نے انٹرپارٹی انتخابات چیلنج نہیں کیے، انٹراپارٹی انتخابات صرف سول کورٹ میں ہی چیلنج ہوسکتے تھے۔ الیکشن کمیشن کے پاس سوموٹو اختیار نہیں کہ خود فیصلہ بھی کرے اور اپیلیں بھی۔
وکیل پی ٹی آئی نے دلائل دیے کہ انٹرا پارٹی انتخابات جماعت کے آئین کے مطابق کرائے گئے ہیں، پی ٹی آئی نے پہلے 2022 میں انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جو الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیے، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیا، خدشہ تھا پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہرنہ کر دیا جائے اس لئے عملدرآمد کیا، سپریم کورٹ اسی دوران آٹھ فروری کو انتخابات کا حکم دے چکی تھی، دو دسمبرکو پی ٹی آئی نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے۔
بیرسٹرعلی ظفرنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمشین میں پارٹی انتخابات کیخلاف 14 درخواستیں دائر ہوئیں، ہمارا بنیادی موقف تھا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر نہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے 32 سوالات بھیجے جن کا تحریری جواب دیا، جواب ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیکر انتخابی نشان واپس لے لیا، الیکشن کمشین کے حکم نامہ میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا۔
علی ظفرنے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی، الیکشن کمیشن نے کہا تعیناتی درست نہیں اس لئے انتخابات تسلیم کرینگے نہ ہی نشان دینگے، کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے، مخدوم علی خان کا نکتہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا۔
’’الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی‘‘
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جمہوریت ملک کیساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں، اکبر بابر بانی رکن تھے وہ پسند نہیں تو الگ بات لیکن ان کی رکنیت تو تھی، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزارپارٹی رکن نہیں تھے، اکبربابرنے اگر استعفی دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں، الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کرینگے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا۔
وکیل پی ٹی آئی نے دلائل دیے کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کررہے۔
جسٹس محمدعلی مظہرنے کہا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈیول فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے، کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑسکتا ہے کون نہیں؟ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی شکایات ملنے پر کارروائی کی۔



No comments:
Post a Comment